ناول جِند
تحریر زید ذوالفقار
قسط نمبر 02
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانفرنس روم میں ان سب کو بلوایا گیا تھا۔
وہ سارے سینئیر سرجن بھی موجود تھے۔ اس کا مقصد بھی ان نۓ ریزیڈنسی پہ آنیوالوں کے ساتھ انٹریکشن کرنا تھا۔
بلال نے دیکھا کل کے برعکس وہ آج لہو رنگ لباس میں ملبوس تھی۔ سفید اوور آل پہنے، اپنی ساتھیوں کے درمیان خاموش بیٹھی تھی۔ وہ بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا تھا۔ اسکی نظروں کا ارتکاز محسوس کر کے اس نے دیکھا تو وہ سر جھکا گیا۔
" پاگل ہوگیا ہے تو ؟؟؟؟ ایسے کیوں بار بار دیکھ رہا ہے۔۔۔ لوفروں کی طرح۔۔۔ "
اس نے خود کو گھرکا تھا۔
" ڈاکٹر فاطمہ قیوم، آپ اپنا انٹرو دیں گی "
بلال نے دیکھا اسکا چہرہ لال پڑتا چلا گیا تھا۔ چہرے پہ پزل ہونے کا احساس اپنا رنگ بھرنے لگا تھا۔ ویسی ہی جیسی وہ کل انٹرویو کے دوران تھی۔ وہ کئی بار اٹکی تھی حالانکہ اب کوئی سبق تو نہیں سنانا تھا۔
وہ بیٹھی تو اس نے سب سے پہلے تالی بجائی تھی اور وہ اس دن اسکی پہلی اور واحد تالی تھی۔ مہران نے طنزاً اسے دیکھا اور لعنت بھیجنے کا اشارہ کیا۔ جواباً اس نے اسے بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی دکھائی تھی۔
" یہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے بچو۔۔۔ ایک غلطی اور ہم مسیحا سے قصائی بنا دئیے جاتے ہیں۔ کوشش نہیں کرنی بلکہ اپنی ساری جان لگا دینی ہے کہ ہم سے غلطی نا ہو۔ باقی یہ سب ہے تو اللہ کے ہاتھ میں لیکن نیتوں کا اجر بھی تو ملتا ہے ناں۔۔۔۔ "
نیت تو اس نے بھی کی تھی۔
بڑے صدقِ دل سے۔۔۔ بہت دیر تک۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وارڈ راونڈ پہ تھے۔
آج ڈاکٹر بلال ظفر نے راونڈ کرنا تھا۔ وہ پی جیز، ریزیڈنسی والے اور ایچ اوز انکے ساتھ تھے۔ وہ ایک ایک بیڈ پہ رکتا، پیشنٹ کے بارے میں پوچھتا اور ہدایات دیتا جاتا۔
وہ تیسرا بیڈ تھا۔ پیشنٹ کو گال بلیڈر سٹونز کا مسئلہ تھا۔
" جی ڈاکٹر فاطمہ۔ کولیسیسٹیکٹمی ہے ٹریٹمنٹ آف چوائس لیکن ہم نہیں کر رہے۔ کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟؟؟؟؟؟ "
وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔ سب کی نظریں اس پہ ہی گڑی ہوئی تھیں
" کم آن یہ تو کامن سینس کا سوال ہے "
وہ سر جھکا گئی۔ وہ اسے بتانے لگا تھا۔
اگلے بیڈ پہ بھی اس نے اس سے ہی پوچھا تھا اور اسکے ٹوٹے پھوٹے جواب پہ بہت دیر تک سمجھاتا رہا تھا۔
اس پورے راؤنڈ میں اس نے بس اسے ہی مخاطب کیا تھا اور اسی سے ہی سوال کئیے تھے۔ اسکا چہرہ لال پڑ چکا تھا اور ماتھا پسینے سے بھگا چکا تھا۔
" کیا مصیبت ہے، یہ کیوں میرے پیچھے پڑ گیا ہے "
اس نے کوفت سے سوچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ کیا مصیبت تھی۔ کیا وجہ تھی کہ وہ بس اسی کی طرف کھنچتا جاتا تھا۔ اسے دیکھتا تو دیکھتے رہنے کو دل کرتا تھا۔ دیکھتا رہتا تھا تو اسے مخاطب کرنے کو جی چاہتا تھا۔ وہ بولتی تھی تو جی چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے پر۔۔۔۔
وہ بولتی ہی نہیں تھی۔
چپ چپ۔۔۔۔ خاموش۔۔۔ گم صم سی۔۔۔۔
اسکی ایک وجہ شائد اسکے گریڈز بھی تھے۔ وہ جانتا تھا اسکا علم اتنا وسیع نہیں تھا۔ کہہ سکتے تھے کہ وہ وہاں تک مر مر کہ پہنچی تھی۔ لیکن اگر اسکا دل نہیں تھا تو وہ وہاں کیوں تھی ؟؟؟ وہ اسکا پیشن تو بالکل بھی نہیں تھا۔ وہ دو دن میں جان چکا تھا کہ سرجری اسکا جنون نہیں تھا۔ وہ وہاں مارے باندھے آتی تھی۔ وہ اسکی ضرورت بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
انٹرویو کے دوران اتنا تو وہ جان چکا تھا کہ وہ ایک جدی پشتی رئیس گھرانے سے تھی۔ اسکا سر نیم جس شخص کا تھا، وہ اپنے علاقے میں مشہور تھا۔
پھر کیا تھا۔۔۔۔۔
وہ نہیں سمجھ سکا تھا۔
اور یہ کھوج اسے اسکے اور پاس جانے کو کہتی تھی۔
اور شائد یہ اس کھوج سے کہیں زیادہ تھا۔ ڈاکٹر بلال ظفر کو وہ اچھی لگنے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہ سب ویسا ہی تھا۔
حویلی ویسے ہی تمکنت سے سر اٹھاۓ کھڑی تھی۔ اسکی گردن میں بھی ویسا ہی سریا تھا جیسا اس کے مکینوں کی گردن میں تھا۔
اکڑے ہوۓ بدن۔۔۔۔ کلف زردہ لباس۔۔۔ اونچے شملے۔۔۔۔ تنی ہوئی گردنیں۔۔۔۔ دھرتی ہلاتی چال۔۔۔۔
وہ اسکے بھائی تھے۔ کزنز تھے۔ چاچے تھے۔ وہ سب اسکا خاندان تھا۔ ایک ایسا خاندان جہاں وہ مِس فٹ تھا۔
" السلام علیکم والدہ "
وہ تپاک سے ملی تھیں
" جیوندا رہ۔۔۔ میرا پتر۔۔۔ میری ٹھنڈ۔۔۔ ماں قربان "
اسکی باری آتی تھی تو وہ ماں ہی بن جاتی تھیں۔ بس ایک ماں۔۔۔ پھر وہ اپنے قبیلے کی سردار سرکار نہیں رہتی تھیں۔
" مجھے پتہ تھا۔۔۔ میرا دل کہتا تھا تو ضرور آۓ گا۔۔۔ آ ادھر میرے کول بیٹھ۔۔۔ بیٹھ۔۔۔ تجھے دیکھوں تو سہی۔۔۔۔ "
وہ مسکرایا اور انکے پاس آ بیٹھا
" ماں سے ناراضگیاں۔۔۔۔ "
" کیسی باتیں کرتی ہیں والدہ۔۔۔۔ "
" تے فیر چار مہینوں میں تیرا ایک بار بھی دل نہیں کیا گھر آنے کو ؟؟؟؟؟ "
وہ ایک لمحے کو چپ رہ گیا
" بس والدہ مصروفیات۔۔۔ ہسپتال۔۔۔ "
" جہنم میں گیا ہسپتال۔۔۔ خصماں نوں کھاوے۔۔۔ تجھے بھی بس شوق ہے غلامی کا۔۔ کب سے کہہ رہی ہوں اپنا ہسپتال کر۔۔۔ ادھر آ جا۔۔۔ یہاں رہ۔۔۔ یہاں راتوں رات تیرے لئیے عمارت کھڑی کردیں گے تیرے بھائی "
وہ انہیں دیکھ کر رہ گیا۔
" میری جگہ وہاں ہے والدہ "
" اپنے پیو جیویں ضدی ایں۔۔۔۔۔ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گئیں۔ وہ مسکرادیا تھا۔ تبھی وہ ٹرے لئیے آئی تھی۔
" السلام علیکم بھائی "
وہ اس سے ڈیڑھ ماہ چھوٹا تھا لیکن وہ اسے دس سال بڑے بھائی کی طرح پیش آتی تھی۔ اب بھی اسکے سامنے سر جھکا تو اس نے شفقت سے اسے ساتھ لگایا تھا
" کیسا ہے میرا بچہ ؟؟؟؟ "
وہ کیسی تھی یہ تو اسکی شکل پہ لکھا تھا۔ وہ اسکی آنکھوں میں جھانکنا چاہتا تھا اور وہ نظریں تک نہیں اٹھا رہی تھی۔ اسکا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" میڈی دھی رانی۔۔۔۔ دل لگ گیا شہر میں ؟؟؟؟ "
اس نے ہولے سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ وہ محبت سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
" رب حیاتی دیوے۔۔۔ جندڑی کا دھاگہ لمبا ہووے۔۔۔ "
فاطمہ نے دیکھا ان پہ بڑھاپا وقت سے پہلے نازل ہوچکا تھا۔ پچاس کے پیٹے میں انکے ساتھ داخل ہوۓ اسکے تاۓ چاچے ابھی تک ہٹے کٹے تھے اور وہ۔۔۔۔ انہیں دیکھ کر ترحم آتا تھا۔ بال ایسے سفید ہو رہے تھے جیسے بس اب کبھی رات نہیں ہوگی۔ چہرہ دن بدن سکڑتا جا رہا تھا۔
" دادی کا حال پوچھ لے۔۔۔ بیمار ہے "
وہ ان کے ساتھ ہی انکے کمرے میں آئ تھی۔
" السلام علیکم دادی "
" اماں دیکھ۔۔۔ تیری ڈاکٹرنی آ گئ اے۔۔۔۔ "
انہوں نے اسے یوں دیکھا جیسے وہ کوئی کمی کمین ہو۔
" تیرے ذریعے ہم پہ تھوڑی سواہ ڈلی تھی قیوم جو اب تیری بیٹی بھی اسی پاسے آ گئی ہے "
اسکے تایا بھی وہیں تھے۔ اسے افسوس سے دیکھا تھا
" تجھے کیا ہوگیا ہے قیوم۔۔۔ ہیں ؟؟؟ کیوں کر رہا ہے یہ سب ؟؟؟؟ "
وہ دانت دباۓ کھڑے رہے
" سارا پنڈ تھو تھو کرتا ہے ہم پہ۔۔۔ جن کے گھر کی عزت پہ کبھی کسی نے آنکھ نہیں اٹھائ تھی، وہ سارے شہر میں کھے کھاتی پھرتی ہے۔۔۔۔ "
" بھائی جی بس۔۔۔۔ وہ میری بیٹی ہے "
" ہماری کچھ نہیں لگتی ؟؟؟ "
" لگتی تو آپ یہ زبان نا استمعال کرتے۔۔۔۔ "
" قیوم۔۔۔۔ اپنی اولاد جب بھٹک جاے تو اسکی اصلاح بھی کرنی پڑتی ہے "
انکی نظروں کے سامنے وہ منظر دوڑ گیا تھا۔
درخت سے بندھا وہ وجود۔۔۔۔ پتھر۔۔۔ خون۔۔۔ چیخیں۔۔۔ وہ کانپ کر رہ گۓ تھے
" ایک بات یاد رکھنا بھائی صاحب۔ تب میں بے بس تھا، پر اپنی دھی کے لئیے میں لڑ جاؤں گا۔۔۔ مر جاؤں گا۔۔ "
اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ کمرے سے نکل آۓ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" والدہ یہ سب نا کریں ناں۔۔۔۔ "
اس رات اس نے ماں کو منت بھرے لہجے میں کہا تھا
" اللّٰہ نا کرے۔۔۔ میرے منہ میں خاک لیکن بعد میں پچھتانا پڑ گیا تو کیا کریں گے ہم ؟؟؟؟ "
" میں ساری حیاتی میں اپنے کسی فیصلے پہ نہیں پچھتائ ہوں پتر۔۔۔۔ "
وہ بے بسے سے انہیں دیکھ کر رہ گیا
" سمیع اللہ اور اور ثمینہ کا کیا جوڑ ہے والدہ ؟؟؟ عمر کا فرق نظر نہیں آ رہا آپکو ؟؟؟ میں اسے غلطی کیسے نا کہوں ؟؟؟ "
" یہ غلطی نہیں ہے۔ جو وہ مشٹنڈی کر گئی ہے، اسکا خمیازہ ہے۔ زبان دی تھی تیرے چاچے کو، اسکا کچھ مطلب ہوتا ہے۔ تیرے وہاں شہر میں نہیں ہوتا ہوگا لیکن یہاں ہے۔ ہم کھرے لوگوں کے لئیے زبان ہی سب کچھ ہے۔۔۔۔۔ "
اس نے انہیں بغور دیکھا تھا
" اور اولاد ؟؟؟؟ وہ آپکے لئیے معنی نہیں رکھتی۔۔۔ ؟؟ "
" وہ میری بیٹی ہے۔ میرا خون۔ میں جو کہوں گی وہ کہے گی آمین۔۔۔۔ "
اس نے لمبی سانس بھری تھی
" وہ بھی آپکا خون تھی والدہ "
" آخ تھو۔۔۔۔۔۔ "
انہوں نے زمین پہ تھوکا تھا۔ وہ انہیں دیکھ کر رہ گیا تھا۔
" ایک بار پھر سوچ۔۔۔۔۔۔ "
" بس۔۔۔۔ "
انہوں نے ہاتھ اٹھایا تھا
" تو لاڈلہ ہے پر ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ میرے فیصلوں میں ٹانگ اڑاۓ۔ کل اسکی منگنی ہے تو ہے۔ بس۔۔۔۔ ہمارے خاندان میں باہر کہیں شادی ہوئی ہے کسی کی اور نا ہی ہوگی۔ سمیع اللہ اس گھر کا داماد بنے گا تو بس وہی بنے گا۔۔۔۔ "
اس نے تھک کر سر جھکایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھر چھٹی گزار کر واپس آئ تو ذہن پہلے سے زیادہ تھکا ہوا تھا۔ زندگی تو پہلے ہی ایک الجھی ہوئی پہیلی تھی۔ اس دن راؤنڈ کے دوران بھی وہ غیر حاظر سی تھی۔ انصاری صاحب کے پیچھے پیچھے وہ ہر بیڈ تک جا رہے تھے
" مس فاطمہ !! کیا بہتر رہے گا ان کے لئیے ؟؟؟ کل کو سرجری کردیں کہ فالو اپ پہ ڈالیں ؟؟؟ "
پہلے تو اس نے سنا ہی نہیں تھا۔ جب سنا تو سمجھ نہیں سکی تھی۔ اب وہ اسکے جواب کے منتظر کھڑے تھے اور وہ سوال میں ہی اٹکی ہوئی تھی۔
" سر کل سرجری کر دیتے ہیں "
بلال جلدی سے بولا تھا۔
" کونسا پروسیجر ٹھیک رہے گا ؟؟؟ "
وہ اس سے ہی پوچھ رہے تھے لیکن اب کی بار وہ پھر سے بتانے لگا تھا۔ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اشارہ کیا کہ سب کے سامنے وہ اسے ٹوکنا نہیں چاہتے تھے لیکن وہ بولتا رہا۔
" Be attentive "
اس کہہ کر وہ آگے بڑھ گۓ تھے۔
وہ شخص اسکی سمجھ سے باہر تھا۔ اپنے راؤنڈ میں وہ اس سے کرید کرید کر سوال کرتا تھا اور اب کسی اور نے پوچھا تو خود سے بتانے لگا تھا۔ شائد اسے اپنی قابلیت جھاڑنے کا شوق تھا۔ یا پھر۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کیفے میں داخل ہوا تو وہ ایک طرف اکیلی بیٹھی تھی۔ سامنے کھانے کی پلیٹ رکھے بے توجہی سے کھا رہی تھی۔ وہ اپنی مطلوبہ شے لیکر اسکے پاس پہنچ گیا۔ وہ بیٹھی تو اس نے چونک کر دیکھا۔ وہ مسکراتا ہوا اسے ہی دیکھ رہا تھا
" آپ سوچ رہی ہوں گی کہ کیسا بد تمیز آدمی ہے۔ اجازت مانگے بنا بیٹھ گیا "
اس نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا
" میں پوچھ بھی لیتا تو آپ یہی کہتیں ناں کہ جی بیٹھ جائیں۔۔۔ تو بس۔۔۔۔ لفظوں کی فضول خرچی کا بھی حساب کتاب ہونا ہے "
اس نے خاموشی سے نوالہ لیا تھا۔
" میں نے سنا ہے اپ کو کچھ شکایات ہیں مجھ سے۔۔۔۔ "
" مثلاً ؟؟؟؟ "
" یہی کہ میں آپکے پیچھے پڑا رہتا ہوں۔ ہر وقت سوال جواب۔۔۔ اپنی قابلیت جھاڑنے کا شوق ہے وغیرہ وغیرہ "
وہ گڑ بڑا گئی۔ نجانے کب اس نے اسکی باتیں سن لی تھیں
" ایسی کوئی بات نہیں ہے سر "
" ایسی کوئی بات ہے بھی نہیں۔۔۔۔ بس یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں آپ سب سیکھ جاؤ۔۔۔ جلدی سے۔۔۔ اچھا اچھا۔۔۔۔ کوئی آپ پہ انگلی نا اٹھا سکے کہ یہ کیوں ہے یہاں۔۔۔۔ "
اس نے اثبات میں سر ہکادیا
" میں ہوچھتا ہوں اور آپکو اچھا نہیں لگتا، ایمبیریس ہوتی ہیں تو بتادیں۔ میں زپ کر لوں گا۔ پرامس۔۔۔ "
" نو سر۔۔۔۔ میں کمفرٹیبل ہوں "
" گڈ۔۔۔۔ "
وہ پانی پینے لگی تھی۔
" کل سرجری اسسٹ کریں گی میرے ساتھ ؟؟؟؟؟ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر انصاری نے سنتے ہی منع کردیا تھا
" ہرگز نہیں۔۔۔ وہ اتنا کمپلی کیٹڈ کیس ہے اور تم اسسٹنٹ کے طور پہ اسے ساتھ کھڑا کرنا چاہتے ہو۔۔۔ نہیں بلال "
" سر میں کونسا اکیلا ہوں۔ احمد ہوگا ناں ساتھ "
" پھر بھی نہیں "
انہوں نے قطعیت سے کہا تھا۔
" تمہیں بھی پتہ ہے اور مجھے بھی کہ اسکے پاس کتنا نالج ہے اور وہ کتنی سکل فل ہے۔ چار سوچرز لگتے نہیں ہوں گے اس سے اور تم۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ کسی اور کو کرلو۔۔۔ فہد ہے، ہما ہے۔۔۔ ان میں سے کوئی۔۔۔۔ "
" ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ پھر میں یہ کیس نہیں کروں گا "
اس نے فوراً کہا
" اپ خود کر لیں یا کچھ بھی۔۔۔ میں آؤں گا ہی نہیں کل۔۔۔ ٹھیک ہے ؟؟؟؟ "
" یار بلیک میلنگ نا کیا کر۔۔۔۔ "
" تو پھر آپ بھی مجھ پہ ٹرسٹ کیا کریں ناں۔۔۔ پہلی دفعہ میں ہی۔۔۔۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر رگ تینوں سوٹ کریندا
ہِک رنگ پر جان کڈیندا۔۔۔۔
تو ایک میرا ہیرو ہے۔۔۔۔ وہ بڑا اچھا سرجن ہے۔۔۔ سچ میں۔۔۔ اور ایک میری ہیروئن ہے۔۔۔ اسکا تو کیا ہی کہوں۔۔۔ آۓ ہاۓ۔۔۔۔ اسکی تو کیا ہی بات ہے۔۔۔۔
وہ زندگی کی ہر فہرست میں بھلے پہلے نمبروں پہ نہیں ہے پر میرے لئیے تو وہ خاص ہے۔۔۔ ہر لڑکی خاص ہی ہوا کرتی ہے۔۔۔۔ ہر فاطمہ۔۔۔۔ ہر ہر فاطمہ۔۔۔ اور اسکے جیسی ہی ہر لڑکی جو عام ہوتی ہیں۔۔۔۔ لیکن خاص۔۔۔۔ خاص الخاص۔۔۔
تو جناب۔۔۔
وہ سرجن جسے دو دن پہلے تک یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسکے پاس کون کون سا سکرب ہے، اج وہ خاص طور پہ سیاہ ڈریس پہن کر آیا ہے۔ اسے جو دیکھ چکا تھا کہ وہ اسی رنگ میں آئی ہے۔
تو۔۔۔۔
پارکوں کی۔۔۔ مہنگے ریستورانوں کی۔۔۔ ٹھنڈے ٹھار افس کی پریم کہانیاں تو بہت دیکھی اور سنی ہیں۔۔۔ اس آپریشن تھیٹر کی محبت کہانی سنیں گے ؟؟؟
چلیں میں بتاتا ہوں۔۔۔۔
فضا میں دواؤں کی باس ہے۔ اینٹی سیپٹکس کی اور نجانے کون کون سی بو ہے۔ فرش پہ خون کے چھینٹے بھی ہیں۔ فضا میں وائٹل کی ٹک ٹک ٹوں ٹوں ہے۔ کبھی کبھی گوشت کے جلنے کی بو بھی بھرنے لگتی ہے۔ اس ٹیبل پہ سرجری جاری ہے۔ وہ سیاہ سکرب میں، ماسک اور گلوز پہنے تن دہی سے اپنا کام کرتا میرا ہیرو ہے۔ اسکے برابر میں چوکس سی کھڑی میری پیاری ہیروئن ہے اور ان کے درمیان جو ہے وہ محبت ہے۔۔۔۔
اچھا اچھا چلو تصحیح کرتا ہوں۔۔۔۔
ہیرو جو اس سے کرتا ہے وہ محبت ہے۔۔۔ وہ کرتی ہے یا نہیں، مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔ مجھے بس یہ پتہ ہے کہ وہ اس سمے وہاں ہے۔۔۔ اسکے ساتھ۔۔۔ اسکے برابر میں۔۔۔۔
اسکے کہنے پہ ایک ایک چیز پکڑاتی۔۔۔۔ اسکی باتیں دھیان سے سنتی ہوئی۔۔۔ خون میں بھرے سپونج سلائن سے دھوتی ہوئی۔۔۔۔
وہاں سب انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔ اسے پتہ تھا اسکی جگہ وہاں نہیں تھی۔ وہاں کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ کوئی بھی۔۔۔ پر اس نے سنا کہ اس نے اسے چنا تھا۔۔۔۔ اس نے اسے حکم نہیں دیا تھا۔ " کیا تم " کہہ کر پوچھا تھا۔۔۔۔
وہ ناں کہہ سکتی تھی۔۔۔ اب جو ہاں کہہ کر وہاں تھی تو اسکا یقیناً کچھ مطلب ضرور تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ واش اپ ہو کر سٹاف روم میں آئی تھی جب وہ ہاتھ میں دو شیک لئیے اندر آیا تھا۔
" Treat for you "
اس نے ایک گلاس اسکی طرف بڑھایا تھا
" کس خوشی میں۔۔۔۔ "
" آپکی پہلی سرجری۔۔۔۔ "
اس نے گلاس تھام لیا تھا
" ویسے یہ آپکی کی طرف سے ہونی چاہئیے تھی "
" ہم دونوں کو پتہ ہے ڈاکٹر بلال کہ اس سب میں، میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔ "
" اچھا۔۔۔ تو میرے ساتھ کون کھڑا رہا تھا ڈیڑھ گھنٹے تک ؟؟؟؟ وہ چوکس ہو کر ایک ایک شے مہیا کرنا۔۔۔ وہ بات کرنے سے پہلے سمجھ لینا۔۔۔ اور لاسٹ کے سٹچز۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟ "
" وہ سٹچز ایک فائنل ائیر کا سٹوڈنٹ یا ایچ او بھی لگا لیتا۔۔۔۔ "
" بیشک لگا لیتا لیکن آج آپ نے لگاۓ۔۔۔۔ یہ اہم نہیں ہے ؟؟؟؟ آپکے لئیے اسکا کوئی مطلب نہیں ہے ؟؟؟؟ "
وہ چپ رہ گئی
" ہماری تعریف کرنیوالا سب سے پہلا انسان ہم خود ہونے چاہئیے ہیں ڈاکٹر فاطمہ ! ہمیں خود پہ فخر نہیں ہے تو دوسروں کی رشک بھری نظروں کا کیا فائدہ ؟؟؟ "
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ وہ مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
" ایک لمبی سانس بھرو اور سوچو۔۔۔ خود سے کہو۔۔۔۔ میں کتنی اہم ہوں۔۔۔ میں نا ہوتی تو اس دنیا کا کیا ہوتا۔۔۔۔ الحمدللہ میں بنائی گئی۔۔۔۔۔ "
وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن ڈاکٹر احمد نے اسے کہا تھا
" کیا بات ہے بلال صاحب۔ آج کل کوئی لفٹ ہی نہیں۔۔۔ "
وہ ہنس پڑا
" آجکل تو میں خود کو بھی لفٹ نہیں کروا رہا "
" ایسا کیوں ؟؟؟؟ "
اس نے کندھے اچکا دئیے تھے۔
اب اس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو بہت دیر تک دیکھا تھا اور پوچھا تھا
" ایسا کیوں ؟؟؟؟؟؟ "
وہ سامنے کھڑا بھی اس سے یہی پوچھ رہا تھا۔
" تم تو بالکل ہی پاگل ہو رہے ہو اس کے لئیے۔۔۔۔ سچ میں یہ دل کا معاملہ ہے ناں ؟؟؟؟ "
" سچی ؟؟؟؟ "
دل بڑی عجیب طرز سے مسکرایا تھا
" تو یہ ہے۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ پاگل کر رہی ہے مجھے۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟ میں۔۔۔۔ میں پاگل ہو رہا ہوں ؟؟؟؟؟ "
اس کے اندر کوئی چلا چلا کر ہاں ہاں کہہ رہا تھا۔
" ایسا بھی کیا۔۔۔۔ "
سب اسے کہتے تھے۔
" ایسا بھی کیا ؟؟؟؟؟؟ "
" تو کیا ایسا نا ہو ؟؟؟؟؟؟ "
آئینے نے سوال کیا تھا۔
" تم بس ہمیشہ تک اپنے بنے رہنا چاہتے ہو ؟؟؟ وہ نظر آئ اور فنا نہیں ہوۓ، اس پہ سوال ہوا تو کیا کرو گے ؟؟؟؟ "
اس نے آنکھیں موند لی تھیں۔
وہ عکس وہیں تو تھا۔ وہ خود بھی تو وہیں تھی۔
وہ خاموش آنکھوں والی خاموش لڑکی۔۔۔۔۔
" اسکا حکم ہے کہ مجھ پہ قربان ہو جاؤ تو دیر کیوں۔۔۔ سوال کیوں۔۔۔ ہاتھ باندھو اور بس کرتے جاؤ۔۔۔۔ وہ جو کہتی جاۓ سنتے جاؤ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب اب بس اسکی چلے گی۔۔۔ خبردار جو اب اپنا نام بھی لیا۔۔۔ تم ہو ہی کیا۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ وہ ہے ناں۔۔۔۔۔ "
وہ زور زور سے ہنستا رہا تھا۔
پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سٹاف روم میں اکیلی ہی تھی۔ اسکی ڈیوٹی دس منٹ تک ختم ہونیوالی تھی۔ تبھی دروازے پہ ہولے سے دستک ہوئی تھی۔
اس نے دیکھا وہ ڈاکٹر مہران تھا۔
" السلام علیکم سر "
وہ اسکی طرف ہی آیا تھا
" کیسی ہیں آپ ؟؟؟؟ "
کرسی گھسیٹ کر وہ اسکے سامنے آ بیٹھا تھا
" آپ سے دو منٹ بات کر سکتا ہوں ؟؟؟؟ "
" جی۔۔۔۔ "
" یہ تھوڑا سا پرسنل ہے۔۔۔ برا مت منانا۔۔۔۔ میں آپکو اپنی بہنوں کی طرح سمجھ کر یہ بات کر رہا ہوں۔۔۔۔ "
وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی
" جی سر کہئیے۔۔۔۔ "
" ڈاکٹر بلال سے دور رہنے کی کوشش کریں "
وہ زرا رکا تھا۔
" وہ اچھا آدمی نہیں ہے فاطمہ۔ میں اسکا بیچ میٹ رہ چکا ہوں۔ وہ ایک کریکٹر لیس انسان ہے جسکی کوئی مورل ویلیوز نہیں ہیں "
وہ دھک سے رہ گئی تھی۔
خاموش۔۔۔۔۔ بالکل چپ چاپ۔۔۔۔
" اسکی عادت ہے یونہی ہراس کرنا لڑکیوں کو۔ انصاری صاحب نے بھی آنکھیں بند کر لی ہیں۔ آپ کو اپنا دھیان خود رکھنا ہوگا۔ اسے خود سے فری مت ہونے دیں۔۔۔۔ "
وہ کہہ کر اٹھا تھا
" وہ شاطر اور خطرناک انسان ہے۔ وہ کالج کے وقت میں ایک معصوم لڑکی کی عزت تک لوٹ چکا ہے۔۔۔۔۔ "
وہ سانس تک نہیں لے پائی تھی۔
" مجھے پتہ ہے آپکو یقین نہیں آیا ہوگا۔۔۔۔ کسی سے بھی پوچھ لینا۔۔۔۔ بلال اور عروج کے بارے میں۔۔۔۔ پھر آپ جان لیں گی کہ وہ اصل میں کیا ہے۔۔۔۔۔ "
وہ کمرے سے نکل گیا تھا۔
اور وہ۔۔۔۔۔۔۔
وہ بمشکل سانس لے پا رہی تھی۔ اسکے بدن کے ہر مسام سے پسینہ پھوٹ نکلا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
إرسال تعليق
إرسال تعليق